مکہ پہنچ کر حضرت خباب رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے آہن گری کا پیشہ اختیار کیا اور تلواریں بنا بنا کر فروخت کرنے لگے اس طرح انہیں معقول آمدنی ہوجاتی تھی‘ وہ بڑے مزے سے زندگی گزار رہے تھے‘ اسی زمانہ میں ان کے کانوں میں کسی کے ذریعہ سے دعوت توحید کی آواز پڑی
سیدنا حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے جنگ صفین کے بعد 37 ہجری میں اپنے دارالخلافہ کوفہ کو مراجعت کی تو شہر سےباہر آپ کی نظر سات قبروں پر پڑی‘ لوگوں سے پوچھا یہ کس کی قبریں ہیں؟ جب ہم کوفہ سے چلے تھے تو یہاں کوئی قبر نہیں تھی۔ جواب ملا اے امیرالمومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ وہ پہلی قبر خباب رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ بن ا رت کی ہے جنہیں ان کی وصیت کے مطابق سب سے پہلے دفن کیا گیا باقی قبریں دوسرے لوگوں کی ہیں جنہیں ان کے اعزہ نے حضرت خباب رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے اتباع میں یہاں دفن کیا۔ یہ جواب سن کر شیرخدا علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی آنکھیں اشک بار ہوگئیں۔ اپنے وقت کے اس برگزیدہ ترین انسان کی زبان پر بے ساختہ یہ الفاظ جاری ہوگئے۔ خباب رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ پر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہو وہ برضا و رغبت اسلام لائے اپنی خوشی سے ہجرت کی‘ ساری زندگی جہاد میں گزاری اور راہ حق میں بڑی مصیبتیں اٹھائیں۔ اللہ تعالیٰ نیکوں کاروں کےاعمال ضائع نہیں کرتا۔ یہ فرما کر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ قبروں کے بالکل قریب کھڑے ہوگئے اور دیر تک حضرت خباب رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ اوردوسرے اہل قبور کیلئے مغفرت کی دعا کرتے رہے۔ یہ خباب رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ بن ارت جن کی قبر دیکھ کر باب علم و فاتح خیبر اشک بار ہوگئے وہی تھے جنہوں نے صفحہ تاریخ پر اپنی عزیمت و استقامت کے ایسے نقوش ثبت کیے تھے جو اہل ایمان کیلئے ابدالآباد تک مشعل راہ بن گئے۔ نصف صدی پہلے یہ غریب الوطن اور بے کس غلام ہونے کے باوجود انہوں نے ایسی راہ اختیار کی جس میں کانٹے ہی کانٹے تھے‘ یہ راہ حق تھی اور خباب رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے اس راہ میں ایسے ایسے زیرہ گداز مظالم برداشت کیے تھے کہ ان کا حال سن کر بڑے بڑے جلیل القدر صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین بے قرار ہوجاتے تھے۔ یہ خباب رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ وہی تھے جو عہد فاروقی میں ایک دن امیرالمومنین سے ملنے گئے تو فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے از راہ تعظیم انہیں اپنے گدے پر بٹھایا اور لوگوں سے مخاطب ہوکر فرمایا خباب رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے علاوہ صرف ایک شخص اور ہے جو اس گدے پر بیٹھنے کا مستحق ہے۔ خباب رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے پوچھا اے امیرالمومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ وہ کون شخص ہے فرمایا: بلال بن رباح رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ تو انہوں نے عرض کیا امیرالمومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ بلال کیلئے تو مشرکین میں سے کئی ان کے مددگار بھی تھے جن کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے ان کو بچالیا تھا لیکن میرا تو کوئی پوچھنے والا نہیں تھا۔ پھر انہوں نے اپنے دلدوز مصائب کی تفصیل بتائی تو فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ اور دوسرے حاضرین مجلس کی آنکھیں نم ہوگئیں۔ وہی خباب رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ آج منوں مٹی کےنیچے اسودہ خواب تھے اور حیدر کرار ان کے قبر کے پاس کھڑے تھے ان کی آنکھوں میں آنسو تھے اور زبان پر مغفرت کی دعائیں تھیں۔
مکہ پہنچ کر حضرت خباب رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے آہن گری کا پیشہ اختیار کیا اور تلواریں بنا بنا کر فروخت کرنے لگے‘ اسی زمانہ میں ان کے کانوں میں کسی کے ذریعہ سے دعوت توحید کی آواز پڑی اس وقت صرف پانچ سعید الفطرت ہستیوں نے اسلام قبول کیا تھا۔ حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا‘ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ‘ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ‘ حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ‘ حضرت ابوذرغفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ۔ مکہ کی فضا بہت پرآشوب تھی۔ مشرکین کو اسلام کا نام سننا بھی گوارہ نہ تھا۔ درحقیقت اس وقت اسلام قبول کرنا ہولناک مصائب کو دعوت دینا تھا۔ بڑے سے بڑا آدمی بھی لوائے توحید تھامنے پر مشرکین کے عتاب سے محفوظ نہ رہ سکتا تھا۔ حضرت خباب رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ ایک غریب الوطن اور بے یارومددگار غلام تھے لیکن مبداء فیاض نے انہیں پاکیزہ فطرت اور شیر کا دل گردہ عطا کیا تھا۔ صدائے حق کانوں میں پڑتے ہی انہوں نے نتائج و عواقب سے بے پرواہ ہوکر اس پر لبیک کہنے پر ایک لمحہ بھی تامل نہ کیا یوں السا بقون الولون کی مقدس جماعت میں سادس الاسلام (چھٹے مسلمان) کے عظیم رتبہ اور لقب سے مشرف ہوئے۔ جونہی انہوں نے اسلام کا اعلان کیا کفار کی برق عتاب ان کے آستانہ عافیت پر کوندنے لگی‘ انہوں نے بے کس خباب رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ پر ایسے ایسے بیہمانہ مظالم ڈھائے کہ انسانیت اور شرافت سرپیٹ کر رہ گئی‘ وہ ان کے کپڑے اتروا کر دہکتے ہوئے انگاروں پر لٹاتے اور سینہ پر بھاری پتھر کی سل رکھ دیتے‘ کبھی انگاروں پر لٹا کر ایک قوی ہیکل آدمی ان کے سینہ پر بیٹھ جاتا تاکہ کروٹ نہ بدل سکیں۔ حضرت خباب رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ صبرواستقامت کے ساتھ ان انگاروں پر کباب ہوتے رہتے حتیٰ کہ زخموں سے خون اور پیپ رس رس کر ان انگاروں کو ٹھنڈا کردیتی۔ اسی طرح ظلم سہتے سہتے کچھ عرصہ گزر گیا تو ایک دن فریاد لے کر سرور کونین ﷺ کی خدمت میں عرض کی یارسول اللہﷺ! آپ ﷺ اللہ پاک سے ہمارے لیے دعا کیوں نہیں کرتے؟ یہ سن کر نبی کریم ﷺ کا چہرہ اقدس سرخ ہوگیا آپ ﷺ نے فرمایا تم سے پہلے گزشتہ زمانہ میں ایسے لوگ بھی گزرے ہیں کہ لوہے کی کنگھیوں سے ان کے گوشت کونوچ ڈالا گیا‘ سوائے ہڈیوں اور پٹھوں کے کچھ نہ چھوڑا‘ ایسی سختیوں نے بھی ان کا دین پر اعتقاد متزلزل نہ کیا ان کے سروں پر آرے چلائے گئے چیر کر بیچ سے دوحصے کردئیے گئے تاہم دین کو نہ چھوڑا‘ اللہ کا دین ضرور کامیاب ہوگا۔ حضور ﷺ کے ارشادات سن کر حضرت خباب رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کا حوصلہ دوچند ہوگیا۔ وہ خاموشی سے اپنے گھر چلے گئے۔ حضرت خباب رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی مالکن نہایت ظالم عورت تھی۔ وہ آپ پر بہت مظالم ڈھاتی‘ کبھی آپ کو دھوپ میں لٹاتی تو کبھی تپتے ہوئے لوہے سے ان کا سرداغا کرتی تھی۔ رحمۃ اللعالمین ﷺ جب ام انمار کے مظالم سنتے تو حد درجہ غمگین ہوتے اور خباب رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ سے دلجوئی فرماتے اس بدبخت عورت کو جب آپﷺ کی دلجوئی کا علم ہوتا تو وہ ان پر اور شدت سے ظلم ڈھانا شروع کردیتی۔ یوں حضرت خباب رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ سالہا سال تک مصائب و الام کی چکی میں پستے رہے یہاں تک کہ ہجرت کا حکم نازل ہوا تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ ہجرت کرکے مدینہ چلے گئے۔ انہوں نے ایذاؤں کے ڈر سے ہجرت نہیں کی تھی بلکہ رضائے الٰہی کا حصول تھا۔ غزوات کا سلسلہ شروع ہوا تو حضرت خباب رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ سرورکائنات ﷺ کی رفاقت میں شروع سے آخر تک تمام غزوات میںشریک ہوئے۔
خلفائے راشدین کے عہد میں حضرت خباب رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ بعض اوقات بہت رویا کرتے تھے اورفرماتے تھے ہم نے رضاالٰہی کی خاطر حضور نبی کریم ﷺ کے ساتھ ہجرت کی ہمارا اجر اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ آخری عمر میں آپ نے کوفہ میں اقامت اختیار کرلی تھی وہیں 37 ہجری میں شدید بیمار ہوئے‘ اسی نازک حالت میں کچھ لوگ عیادت کیلئے آئے اور اثنائے گفتگو کہا آپ خوش ہوجائیے کہ دنیا چھوڑنے کے بعد حوض کوثر پر اپنے بچھڑے ساتھیوں سے ملاقات ہوگی یہ سن کر آپ پر گریہ طاری ہوگیا اور اسی حالت میں اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں